دل کا کیا بھروسہ کب دیوانہ ہو جائے
محبت کی داستان کب فسانہ ہو جائے
جسے چاہتے ہیں دل سے ہم
نہ جانے کب وہ بیگانہ ہو جائے
پھرتا ہے شمع کے گرد در بدر جو
کیا خبر کب وہ پروانہ ہو جائے
تیرا گھر تو ساقی ہے شراب خانہ
نہ جانے میرا کب یہ آشیانہ ہو جائے
مجھے رکھ دے تو جکڑ کر زنجیروں میں
نہ جانے شاکر کب دیوانہ ہو جائے