نظر کے تیر داغ کے
ستمگر کا یوں ستا نا
ھر چال میں فریبی
ھر چال ظالما نا
آواز میں ترنم
ہونٹوں پے کوئ گانا
مست ہے خودی میں
وہ مۓ کی جان-ے جانا
ابر کا ہے موسم
بارش کا ہے پانی
ڈبا رہا ہے دل کو
اُ س کا روٹھ جانا
مرجھا ے ہوئے دل کا
یوں پھر سے کھل جانا
تیاری ہے پھر سے
دھوکا ہے پھر سے کھانا
سبب اُس کے تبسّم
اور رہنے اَبس توانا
لاے ہمیں گرانی
اِس جی کا تڑپ جانا
کرے گا وفا وہ ہم سے
نا چاہا اگر زمانا
پر کہاں یہ حال دل کا
کہاں وہ خاب سوہانا
پانے کی اُسے کوشش
کر گی ہمیں دیوانا
یوم ے جزا کے دن اب
دیں گے یہی بہانا
وعدے وفا کے سا رے
بار بار یاد دلانا
کیسا ہے ظلم اُس کا
ہر بار بھول جانا