بھیڑ سے نکل کے ہم راستہ بنائیں گے
جو لکھی غزل ہے جا کے وہی سنائیں گے
آج پھر بلایا ہے سجنا نے مجھے تنہا
اپنی ہم تو قسمت جا کے ہی آزمائیں گے
بات بات پر جو بولا ہی جھوٹ کرتا تھا
نظروں سے نظر کیسے ہم سے وہ ملائیں گے
پیار میں کمی کیسے آئے گی ہمارے میں
روٹھے ہم تو سجنا میرے ہی پھر منائیں گے
ڈر لگے گا تنہائی میں دیکھنا اسے شہزاد
کیسے پھر اندھیرے میں اپنے گھر وہ جائیں گے