بہاؤ تیز تھا دریا الٹ گیا ہوگا
زمیں سے پانی مخالف سمت گیا ہوگا
بسر وہ کیسے کرے گا فراق ہجر کے دن
ابھی تو وقت مسافت میں کٹ گیا ہوگا
وہ راستہ تو خطرناک ہے وہاں لٹیرے ہیں
ابھی تلک جو نہیں آیا لٹ گیا ہوگا
نہ انتظار کرو گھر چلے ہی جاؤ تم
نہیں وہ آئے گا اب پیار گھٹ گیا ہوگا
نہیں وہ ہارنے والا ہوا ضرور ہے کچھ
وہ اپنی مرضی سے پیچھے ہی ہٹ گیا ہوگا
نہیں ہوں خوف زدہ موت آنی ہے اک دن
وہاں جو بم پڑا تھا کب کا پھٹ گیا ہوگا
نہیں ہے کوئی تعلق میں جانتا ہوں اسے
وہ اس کے ساتھ تو ایسے چمٹ گیا ہوگا
کرے گا سامنا قانون خود بنائے گا
اصول اپنے پہ شہزاد ڈٹ گیا ہوگا