بہار آتی ہے کیسے؟ یہ نشانی ہم بھی دیکھیں گے
بدلتی کس طرح سے ہے ویرانی ہم بھی دیکھیں گے
سنا ہے کان پر تارے قمر ماتھے پہ ہوتا ہے
سجاتے ہیں وہ زیور آسمانی ہم بھی دیکھیں گے
ہوئے ان کی تجلی سے بڑے اندھے زمانے میں
تجلی آج یہ ان کی طوفانی ہم بھی دیکھیں گے
سنا ہے دیکھنے والا کوئی زندہ نہیں رہتا
تو پھر اس شوخ و چنچل کی جوانی ہم بھی دیکھں گے
تجسس بڑھ گیا ہے آج اور قابو نہیں دل پر
طبیعت کی یہ فولادی روانی ہم بھی دیکھیں گے
صرف تم کربلائے عاشقاں کا آسرا ڈھونڈو
وہاں غم ہائے الفت کی گرانی ہم بھی دیکھیں گے
تمہارے ہونٹ سے آبِ حیاتِ نو صنم پی کر
خضر جیسی بہارِ زندگانی ہم بھی دیکھیں گے
بہارِ زندگی میں شوق کی کلیاں یہ کہتی ہیں
بٹھا کر سامنے جادو بیانی ہم بھی دیکھیں گے
کبھی تو جعفری ہو گا خاموشی ٹوٹ جائے گی
خاموشی کی مرگِ ناگہانی ہم بھی دیکھیں گے