تتلیاں پھول کی پرستش میں
ناچتی پھر رہی ہیں آنگن میں
لحظہ لحظہ ہے رنگ و بو کی بہار
تازہ غنچوں کی خشبوئوں کی بہار
کوکتی کوئلوں کے مدھر سر
اب کے رس گھولتے ہیں کانوں میں
چہچہاتے ہیں کچھہ پرندے بھی
ڈالی ڈالی پہ، آشیانوں میں
کچھ پرندوں نے پر کو پھیلا کر
صبح ِ بہار کا کیا اعلان
ایسے میں فکر کے بھی پنچھی نے
میرے بھرلی تخیلوں کی اڑان
ہر تخیل میں نقش و خو تیرے
موجزن تھے قدم قدم میرے
غنچے یادوں کے دل کے آنگن میں
کھل اٹھے تیرے، اے صنم میرے
بھول کر پھر چمن کے غنچوں کو
دل کے غنچوں کی آبیاری کو
میرے آنکھوں کے ابر ِ باراں سے
ہولے ہولے پھوار پڑتی رہی
تو مجھے اشکبار کرتی رہی