بہار جب بھی چمن میں دِیے جلاتی ہے
ہجومِ گُل سے مجھے تیری آنچ آتی ہے
یہ فیضِ لذّتِ تخلیق، خون ہو کے کلی
خُود اپنے زخم کے پردے میں مُسکراتی ہے
وفورِ رنگ میں گھُلنے لگی ہے کیوں شبنم
عروسِ گُل کو اگر آئینہ دکھاتی ہے
یہ شب ہے یا شفق افشانیوں سے گھبرا کر
نگارِ شام حیا سے لٹیں گراتی ہے
یہ کائنات کا آہنگ ہے کہ سحرِ حیات
چٹک کلی کی، ستاروں کو گدگداتی ہے
یہ رودِ آب، یہ تارے، یہ شرِ لالہ و گُل
ابھی وہ آ نہ چکے اور رات جاتی ہے