مکھڑے پہ اس کے کچھ ایسا سماں ہے
ہمیں ہر دم جس پہ بہار کا گماں ہے
ناز سہ سہ کے یہ حالت ہوئی اب اپنی
کہ ذرہ ذرہ چشم کا خوں فشاں ہے
جفائیں ہوئیں ان کی بزم میں ہم پر
تھے ہم حیراں کہ وہ کیوں مہرباں ہے
اسیر ہیں باغباں تلے مرغان خوش نوا
ہیں طالب حق و فریاد نوک زباں ہے
روکتے ہو کس بل پہ ہمیں ناصح جی
کہ اسی دھندہ سے تھرکتا تمہارا آشیاں ہے
بیوفائی اسکی ہے ظاہر میں شہ رقیب ناصر
ہے ترک گفتگو‘ مگر یہ تیرا امتحاں ہے