جھوٹا کوئی افسانہ سنا کر چلا گیا
آج بھی کوئی بہانہ بنا کر چلا گیا
ھر بار وہی جھوٹی تسلی اپنے دل کو
یعنی اک اور آسرا دلا کر چلا گیا
ایک تو ھجر کی راتیں کاٹے نہیں کٹتیں
اور وہ چراّغ امید بھی بجھا کر چلا گیا
بدلتا ھے رنگ زمانہ آہ!!! دیکھئے کسطرح
جو نا خدا تھا وہی ڈبا کر چلا گیا
اور توقع کیا کیجئے حسن والوں سے؟
ایک آزار اور الفت کا بڑھا کر چلا گیا
اچھے خاصے دور تھے ھم بلائے عشق سے
کوئی آیا اور ھمیں دیوانہ بنا کر چلا گیا