بہت دن کے بعد تیری تصویر دیکھی ہیں
Poet: AF(Lucky) By: AF(Lucky), Saudi Arabaiبہت دن کے بعد تیری
تصویر دیکھی ہیں
ُان آنکھوں میں پھر سے
وہی تعبیر دیکھی ہیں
وہی ہستے ہوئے لمس
جن پے ایک ہی زنجیر دیکھی ہیں
ُاس چہرے میں کتنی معصومیت تھی لکی
جس پے پل میں فدا ہوتی اپنی تقدیر دیکھی ہیں
یوں تو وہ خاموش تھا مگر
کانوں میں گھونجتی آواز دیکھی ہیں
بھلا وہ کہا سے بے وفا لگتا ہیں لکی
جو آج خواب میں تنہا اندھری رات دیکھی ہیں
خدا خیر کریں ! جو آج زندہ
قبر میں جاتی اپنی لاش دیکھی ہیں
نہیں وہ بےوفا نہیں ہو سکتا لکی
میں نے خود ُاس کی آنکھوں میں اپنی دعا دیکھی ہیں
شاید ! یہ میرا ہی کوئی وہم ہیں
جو آج میں نے ایسی خواب دیکھی ہیں
وہ تو بدل نہیں سکتا کیونکہ میں نے
ُاس کے حوصلوں میں پکی بنیاد دیکھی ہیں
اک خواب سے آخر کیوں ڈر رہی ہو تم لکی
جبکہ ُتو نے تو کھلی آنکھوں سے خدا کی ذات دیکھی ہیں
تیرے عشق کا شاید ! کوئی امتحان ہو
خدا کی طرف سے لکی
ورنہ کیا کبھی ُتو نے خدا سے مانگے
کے بعد کسی کی خالی جھولی دیکھی ہیں
چل بھول جا ! جو ہوا تیرے ساتھ یا
پھر جو ہو رہا ہیں تیرے ساتھ
کیوں پریشان ہیں ُتو ، وہ نہیں آیا تو آ جائے گا
کیا خدا کے گھر میںدیر کے سوا کبھی اندھیر دیکھی ہیں
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل






