بہت دیر ہو گئی ہے آنسو بہائے کو
کوئی ایسی بات کہو ہمیں رلاؤ تو سہی
پردہ تو لازم ہے غیروں سے جاناں
ہم تو اپنے ہیں یہ چہرہ دکھاؤ تو سہی
لوٹ آئیں گے تمہارے پاس پل بھر میں
ان دوریوں کو تم کبھی مٹاؤ تو سہی
تیری زلفوں میں جو پُرسکون رات تھی
ویسی نیند ہمیں پھر سے سُلاؤ تو سہی
ہم تو حال اپنا سنا چکے ہیں تم کو
تم بھی حال اپنا کبھی سناؤ تو سہی