بہت شوق تھا مجھے تنہا شخص کی تنہائی دیکھنے کا
جنوں میں کیونکر ہوتی ہے بھلا رسوائی دیکھنے کا
جنوں میں مبتلا ہو کر بہت رسوائی دیکھی ہے
بہت خود کو تنہا دیکھا بہت تنہائی دیکھی ہے
میری آنکھوں میں شوخ مستیاں لہراتی رہتی تھیں
کہ جب جب نیل گگن میں بدلیاں لہراتی رہتی تھیں
مگر نادان آنکھیں جانتی نہ تھیں کہ بدلیاں
فلک پہ جب لہراتی ہیں برس کے ہی دم پاتی ہیں
شفق کی سَرخیاں آنکھوں میں کب کیسے اَترتی ہیں
مچلتی بدلیاں آنکھوں سے کب کیسے برستی ہیں
یہ میں نے پہلے کب سیکھا یہ میں نے پہلے کب جانا
تَجھے پانے سے پہلے بھی تجھے کھونے سے ڈرتی تھی
میں خود سے چَھپ کے چَپکے چَپکے عشق کرتی تھی
تیری باتوں سے اپنے دل کا آشیاں مہکایا تھا
تیری یادوں کا اپنی آنکھوں میں کاجل لگایا تھا
تمہارے عشق میں بیدار ہو کر یاد میں سو کر
اور اب تَم سے جَدا ہو کر تمہاری یاد میں رو کر
بہت رسوائی دیکھی ہے بہت تنہائی دیکھی ہے
جنوں میں مبتلا ہو کر ہی جگ ہنسائی دیکھی ہے
بہت شوق تھا مجھے تنہا شخص کی تنہائی دیکھنے کا
جنوں میں کیونکر ہوتی ہے بھلا رسوائی دیکھنے کا
جنوں میں مبتلا ہو کر بہت رسوائی دیکھی ہے
بہت خود کو تنہا دیکھا بہت تنہائی دیکھی ہے
ماریہ ریاض کی فرمائش پر