لاپرواہی کے دَلدل نے تمھیں خدشے میں رکھا ہے
بدلتے موسموں کی رُوپ سی جو میری طبیعت ہے
تمھیں بے چین رکھتی ہے
فکر کی دُھوپ ہمیشہ ہی تمہارے سَر پر رہتی ہے
میری ذاتِ محور کے سِوا کچھ غرض نہیں تم کو
میری قُربت کے لمحوں کی منتظر ہو نہ تم؟
بہت ناراض ہو نہ تم؟
ربط کے ضابطے میں اِک تَسلسل چاہیے تم کو
بہت زیادہ نہیں تھوڑی توجہ چاہیے تم کو
تمہیں ہے مان اگر تم کبھی ناراض ہو مجھ سے
تو محبت کے حوالوں سے تمہیں تسکین پہنچاؤں
زمانے کی روایت سے زرا ہٹ کر مناؤں
اسلئیے ناراض ہو نہ تم؟
بہت ناراض ہو نہ تم؟
حقیقت ہے کہ میں بے حد نادان ہوں لیکن
مجھے تم سے محبت ہے
احساسِ لافانی کبھی الفاظ کی صورت
کسی دل میں کوئ مُورت
کہاں تشکیل دیتی ہے؟
زُباں کوئ نہیں اسکی ، نہ کوئ رنگ ہے اسکا، نہ کوئ دھنگ ہے اسکا
بتاؤ؟
کیسے جتاؤں میں اپنی محبت کو؟
میرے عشق کی نِصبت تمہاری ذات سے وابسطہ
میرے درد کی شدت تمہارے اشک سے منصوب
نہ واقف ہی سہی میں عشق کے ہر رِمض سے لیکن
مجھے اب فکر لاحق ہے
تمھیں کھُونے کا خدشہ ہے
جو تمہارا ساتھ نہ ہو مُمکن
تو جو سانسوں کی روانی ہے
جو دھڑکن کی کہانی ہے
جو وجہءِ زندَگانی ہے
یہ سب بے معنی ہے
مگر ناراض ہو نہ تم؟
بہت ناراض ہو نہ تم؟