یہ جو پہلو میں سو رہا ہے دل
داغ وحشت کے دھو رہا ہے دل
وہ گھڑی تو متاع غیر ہے اب
یونہی بے تاب ہو رہا ہے دل
رفتہ رفتہ وہ چھائے جاتے ہیں
دھیرے دھیرے سے کھو رہا ہے دل
نہ میرے لہجے کی مسکان پہ جا
کیسے کہہ دوں کہ رو رہا ہے دل
نفرتوں کے مہیب موسم میں
بیج چاہت کے بو رہا ہے دل