آج کچھ بات عجب اس کے لب پہ آئی تھی
سانسیں رکیں سی تھی آنکھ بھر آئی تھی
دم رخصتی ہم نے بھی نہ کوئی سوال کیا
جو مڑ کے دیکھتے تو اپنی بڑی رسوائی تھی
شاید بھول گیا وہ وعدے وہ قسمیں ساری
اسکے لہجے میں عجب بیگانگی اتر آئی تھی
کل تک جان دینے کے وعدے کرتا تھا جو
آج جان لینے کی اس نے قسم کھائی تھی
یوں ریزہ ریزہ کر گیا میرے وجود کو عرشی
دامن کوہ سے جیسے کوئی بلبل ٹکرائی تھی