خزاں کو آنا ہے یہ بار بار آئے گی
ہمارے بعد بھی پھر سے بہار آئے گی
کسی کی یاد کو آنے سے روک پاؤ گے
یہ جب بھی آئے گی بے اختیار آئے گی
ہم اپنی بات پہ قائم ہیں آج بھی جاناں
ہمارے سامنے تو اشک بار آئے گی
یہ آج کس نے پکارا ہے پھر محبت سے
یہ موت ہم کو یہاں کتنی بار آئے گی
چلو کہ ارشیؔ کہیں اور چل کے رہتے ہیں
کسی کی یاد یہاں بار بار آئے گی