بے برَگ و باَر شجر منتظر بہار کا ہے
اسے بھی آسرا شاید کسی کے پیار کا ہے
کبھی سناوْ تو کیا ہے تمہارے شہر کا حال
ہمارے شہر میں موسم تو انتظار کا ہے
ذہن تو اُسکی ہر اِک بات مانتا ہے ، مگر
یہ مسئلہ تو محض دل کے اعتبار کا ہے
اُسی پہ ختم ہے انجان بنَ کے جینے کا فنَ
اشارہ جس کی طرف اس نگاہِ یار کا ہے
کہوں میں کیسے کہ حائل ہے اپنی راہوں میں
اِک سلسلہ جو خطاوْں کے کوہسار کا ہے
نقوش یاد نہیں گر بہت سے چہروں کے
تو اِس میں دوش فقط وقت کے غبار کا ہے
ہمیں پسند نہیں اُس گلی میں انور جی
یہ آ نا جانا تمہارا جو بار بار کا ہے