بے حجابانہ وہ کل جب بر سر محفل گئے
جتنے مرجھائے تھے چہرے ایک دم سے کھل گئے
یار وہ نازک ہے اتنا میں نے اس کے آنے پر
فرش پھولوں کا بچھایا پاؤں پھر بھی چھل گئے
جانے اس آواز میں کیسی شفا موجود ہے
اس نے پوچھا ٹھیک ہو اور زخم خود ہی سل گئے
وہ جو اپنی بے تکی باتوں سے ہی مشہور ہے
اس کی باتیں سننے کو سب شہر کے عاقل گئے
صرف اس کے حسن کی خیرات لینے کے لئے
بن کے شاہان زمانہ بھی وہاں سائل گئے
بیٹھے بیٹھے اس نے ندی میں ڈبوئے پاؤں اور
دیکھتے ہی دیکھتے دونوں کنارے مل گئے
اپنی منزل پانے والوں میں وہی کچھ لوگ ہیں
روند کر اپنی انا جو جانب منزل گئے