رگ رگ میں خون مچلا ۔ نس نس نے ہوا مانگی
دیوانگی نے اب کے یہ کس کی ادا مانگی
دونوں نے اپنی اپنی فطرت نبھائی دل سے
تو نے بھی ستم ڈھائے میں نے بھی دعا مانگی
چلمن گرا کے تم تو منظر سے ہٹ گئے تھے
پھر کس کے دریچوں سے کرنوں نےبقا مانگی
قسمت کے ستاروں پہ سہرے سے لگے سجنے
ہاتھوں کی لکیروں نے یوں بوئے حنا مانگی
پت جھڑ کےموسموں سے اتنی تو خبر لاؤ
پھولوں سے چوری چوری کس کس نے حیا مانگی
بے غرض جھکی پلکیں ۔ بے ساختہ سجدے ہیں
بے لوث عقیدت ہے کب ہم نے جزا مانگی
رحمت تھی جوش پر تو کہتے کہ شوق دے دو
عمر دراز تم نے مانگی بھی تو کیا مانگی
بس چاہتا ہوں مجھ سا تم پر بھی ہجر بیتے
وہ وصل کی عنایت کب میں نے بتا مانگی
دیکھو تو میں نے ابر باراں کو پکارا ہے
سمجھو تو بے خودی میں زلفوں کی گھٹا مانگی
روئے فلک پہ انجم نالاں سے لگ رہے ہیں
بس دیکھنے کو کچھ دن جنت تھی ذرا مانگی