بے وفا لوگ نہیں تھے جو جفاؤں سے لڑے
ملنے کی آرزو میں لوگ اداؤں سے لڑے
پھول بن کر یہ کلی اپنی بکھیرے نگہت
ٰآنے والی ہیں چمن میں یہ خزاؤں سے لڑے
باغ ویران ہوا تیز چلی ہے آندھی
اتنی طاقت ہی کہاں کوئی ہواؤں سے لڑے
ہو خسارہ ہی رہا ہے نہیِں بدلیں گے دن
حوصلہ کس میں ہے اپنی وہ خطاؤں سے لڑے
دوست دشمن کی نہ پہچان رہی ہے کوئی
وقت کے ساتھ نہیں بدلے وفاؤں سے لڑے
میرے حق میں نہ ہوا فیصلہ کوشش کی بہت
بک گیا جج بھی عدالت میں بلاؤں سے لڑے
ماں کے قدموں میں ہے جنت کرو خدمت ان کی
ہارتا وہ نہیں ماں کی جو دعاؤں سے لڑے
دھند کا راج ہے سردی بھی بہت ہے شہزاد
اب یہ ممکن ہی نہیں کوئی فضاؤں سے لڑے