مقید ہے عکس تیرا نگاہ میں گو مدت ہوی ملاقات ہوۓ
کیونکرہو ملاقات تیری جانب سے تایئد ملاقات کی خبرآتی نہیں
بات بناۓ بنتی نہیں تحریر میں اب وہ شدت کہاں
گفتگو کی بھی ان سے اب کوئ راہ نظر آتی نہیں
منجمد ہو کر رہ گئ ہے روح اپنی ویرانے میں
شاہ خاور سے بھی یوں اب وہ حدت آتی نہیں
اثیر ہوکر رہ گۓ ہیں تیری یادوں کے محور میں
صدا تم تلک پہنچتی نہیں ندا میں اب راگنی آتی نہیں
بے سوز زندگی ڈوب رہی آنسوں کے ساگر میں
چاندنی میں بھی ہم کو اب وہ روشنی نظرآتی نہیں
جانےجاں اب جو ملے تودیکھوں گا تیرا چہرہ کیسے
نیند سےنا آشنا آنکھوں میں بینائ کی آس نظر آتی نہیں
کچھ اسطرح ہوے پیوست بےوفائ کے ناسورتن میں
کہ اب دارو درمن کی بھی ہم کوکوئ صورت نظرآتی نہیں