بے چینی بھری اس رات کا عجب ہی اک انداز تھا
آنکھوں میں انتظار تھا تیرے آنے کا امکان تھا
نہ بن سکی تیری ہمسفر نہ چل سکی تیرے ہمقدم
کہ زندگی کا خمار تھا اور بے بسی کا انبار تھا
تجھے چاہ کر بھی کیا ملا سزا ملی قفس ملی
دل لگی میں سرور تھا کہ تیری نگاہ کا قصور تھا
تجھے غرور تھا اپنی ذات پر جو انا تھی اور کچھ نہیں
تو کیوں اس سے دور تھا جو پاس تھا تجھے راس تھا
وہ ناخدا تھا کسی اور کا جو جا بسا جانے کس گلی
عائش جو بھی تھا جہاں بھی تھا پر دل کے قریب تھا