بے کیف دن میرے ‘ بے مزہ راتیں
ان سے ہونی تھیں‘ نہ ہو سکیں ملاقاتیں
وہ جب ہم ہی تھے مرکز نگاہ
کاہے کو لوٹیں گی وہ ساعتیں
گزری برسات کا نہ لطف آئے گا
جانے کتنی گزر جائیں گی برساتیں
اشک بہاؤں کہ کروں دل کو لہو
کون اب کرے گا وہ عنایتیں
ناصر اس موڑ پر اب سوچتا ہے
باب انس کی پڑھے کے اور حکایتیں