تجھے آرزو مجھے جستجو تو نے پا لیا میں نہ پا سکی
یہ ظرف ظرف کی بات ہے تو بھلا گیا میں نہ بھلا سکی
وہ چراغ جو جلتے رہے میرے پیار کی تھی نشانیاں
انھیں تو نے جاناں بجھا دیا پر میں نہ انھیں بجھا سکی
کبھی تو روئے گا ٹوٹ کر جب آئیں گے یاد پل حسین
جن پلوں کو عائش وہ جلا گیا میں نہ جلا سکی
اس کا پیار جیسے آندھیاں سب کچھ اڑا کر چلی گئیں
وہ میرا نقش تک مٹا گیا میں اس کا نقش نہ مٹا سکی
روداد یار سنانا بھی عائش ہنر کمال ہے
جو وہ بارہا دہرا گیا سر بازار میں نہ دہرا سکی