کاش ! تجھے اک خواب نظر آئے
خواب میں میرا حال نظر آئے
میرے چہرے پے اشکوں
کی برستی برسات نظر آئے
میرے تکیے پے بے رنگ
آنسؤں کے داغ نظر آئے
جو مجھے اندر ہی اندر
ختم کر رہا ہے
تجھے وہ سیلاب نظر آئے
اندھرے کمرے میں جلتا
تیرے آنے کی امید کا
اک چراغ نظر آئے
وہ قلم جو تیرے پیار کی
سیاہی سے لکھتا تھا
محبت نامہ وہ تجھے پیاسا
اور خشک نظر آئے
تو جہاں دیکھے ہرسو
تجھے تیرا عکس نظر آئے
اس کمرے کی خاموشی
میں بھی تجھے
تیری تلخی نظر آئے
اور تو چیخ پڑے
وہ آخری منظر دیکھ کر کہ
تو جب ہاتھ لگائے
تو تجھے میری لاش نظر آئے
تو اٹھے اور واپس آ جائے
میری طرف کہ تجھے
اپنے دل میں میرے لیے پیار نظر آئے