کمال ضبط کو خود بھی تو آزماؤں گا
میں اپنے ہاتھ سے اس کے دولہا کو سجاؤں گا
سپرد کر کے اسے چاندنی کے ہاتھوں میں
میں اپنے گھر کے اندھیروں میں لوٹ آؤں گا
بدن کے کرب کو وہ بھی سمجھ نہ پائے گی
میں دل میں روؤں گا آنکھوں سے مسکراؤں گا
بچھا دوں گا گلابوں کے ساتھ اپنا وجود
وہ سو کے اٹھے تو خوابوں کی راکھ اٹھاؤں گا
جواز ڈونڈھ رہی تھی نئی محبت کا وہ
میں کہہ رہا تھا کہ میں تجھے بھول نہیں پاؤں گا