نہ جانے کون سی وہ حسیں رات ہو گی
جب تو میرے خواب میں ہو اور میں تجھے دیکھ سکوں
اب تو عمر ہو چلی ہے یہ انتظار کرتے کرتے
کہ میں پھر سے تیرا جلوہ تکوں اورتجھے دیکھ سکوں
اپنی سانسوں میں ٹیری مہک محسوس کر سکتا ہوں
اب تو آ جا کہ تجھے یاد کروں اور تجھے دیکھ سکوں
تیری یاد میں اک اک پل جو گزارا تھا میں نے
اس وقت کی قسم دے کے کہوں اور تجھے دیکھ سکوں
دم آخر تک اب تو یہی تمنا ہے ناصر کی
کہ ہر روز تیرا دیدار کروں اور تجھے دیکھ سکوں