تجھے رستہ سمجھتے ہیں، تجھے منزل سمجھتے ہیں
تجھے ہم ابتدا و انتہائے دل سمجھتے ہیں
جہاں کچھ بھی کہے لیکن ہمارا فیصلہ یہ ہے
تجھے ہم ہر طرح سے عشق کے قابل سمجھتے ہیں
ہماری بے خودی پر عقل کو بے حد تعجب ہے
تجھے محبوب کہتے ہیں تجھے قاتل سمجھتے ہیں
حیات و موت تیری ذات میں محصور کہتے ہیں
تجھے ورطہ سمجھتے ہیں، تجھے ساحل سمجھتے ہیں
محبت جس میں نہ ہو اس کو ہم ویرانہ کہتے ہیں
محبت جس میں بستی ہو اسے ہم دل سمجھتے ہیں
وہ غیرت اور خودداری جو جھکنے سے ہمیں روکے
تمہارے راستے کا اس کو ہم حائل سمجھتے ہیں
نہ ہی عاشق سمجھتے ہیں، نہ ہی شیدا سمجھتے ہیں
ترے دروازے کا خود کو فقط سائل سمجھتے ہیں
گزرتے ہیں جو لمحے تیری یادِ پاک میں جانم
اسی کو زندگی کا اپنی ہم حاصل سمجھتے ہیں
ہماری ایک اک رگ میں تمہارے جلوے ہیں پیوست
ذہن کو گھر ترا سینہ ترا محمل سمجھتے ہیں
ہمیں احساسِ تنہائی ستائے یہ نہیں ممکن
تمہاری یاد کو ہم جلوہٴ محفل سمجھتے ہیں
مری وحیٴ محبت پر نہ ہو جس شخص کا ایماں
خلیلی# اس کو ہم تکفیر کے قابل سمجھتے ہیں