تجھے کہا نا، کہ تو ہمیشہ سے رائیگاں مجھ کو سوچتا ہے وہ تو نہیں ہے
جو میری چاہت میری محبت کی دھوپ چھاؤں کا زاویہ ہے وہ تو نہیں ہے
تیری رفاقت کی چھاؤں میری حیات بھی کائنات بھی اور نجات بھی ہے
مگر یہ مجھ میں جو شاعری کی فضائیں ہموار کر رہا ہے وہ تو نہیں ہے
یہ چار شامیں جو معتبر سی فضا میں ہم نے گزار لیں ہیں تو یہ غنیمت
اب اس کے آگے جو منتظر اک چراغ آثار راستہ ہے وہ تو نہیں ہے
میں مانتی ہوں کہ میرے خوابوں میں تیری خوشبوں کی چاندنی بھی کہیں کہیں تھی
یہ شہر لیکن میرے حوالے سے جن کو تسلیم کر رہا ہے وہ تو نہیں ہے
وصال موسم کے خواب میں تھی یا ہجر کے بے نشاں دکھ کے عذاب میں ہوں
جو سایہ سایہ اکٹھا کر کے دکھوں سے مجھ کو نکالتا ہے وہ تو نہیں ہے