اک عجیب رشتہ ہے
پاس روح کے گویا، دور آسماں جیسا
رات کی عبادت سا، صبح کی اذاں جیسا
پُروقار مسجد سا، معتبر ہے ماں جیسا
مطمئن فرشتوں کے قلبَ ضوفشاں جیسا
مضطرب سمندر کی موجِ بے کراں جیسا
سامنے کے منظر سا اور کبھی گُماں جیسا
زندگی کا سرمایہ، عمرِرائیگاں جیسا
اک عجیب رشتہ ہے
سارے لفظ عاجز ہیں
نام ہو نہیں سکتا
خاص مجھ پہ اُترا ہے
عام ہو نہیں سکتا