ترا خیال کریں ایسے اُستوار آنکھیں
فضا میں رقص کیے جائیں بے قرار آنکھیں
از اتفاق ملا لمسِ جاں کا جو لمحہ!
اُسی کو سوچتی رہتی ہیں بار بار آنکھیں
یہ تارِ نُورِ نظر ہے تجھی سے وابستہ
تری نظر پہ ہی کرتی ہیں انحصار آنکھیں
ترے سِوا نہ شبِیہ اور دیکھتیں کوائی
مکینِ فکر جو ہوتیں خود اختیار آنکھیں
بھروسہ کرتی نہیں ہیں کسی پہ دنیا میں
جہاں میں کرتی ہیں بس تجھ پہ انحصار آنکھیں
غزل غزل میں محبت کی روشنی بھر دیں
ہر ایک شعر کی جاں تیری حرف زار آنکھیں
ہے یاد عاشی وہ پل پہلی بار ملنے کا
ٹھہر گئیں مرے چہرے پہ بن کے پیار آنکھیں