ترا مزاج تکبر کا شاخسانہ تھا
تعلقات کا منظر بدل ہی جانا تھا
گئے تھے ہم بھی فقط رسم ہی نبھانے کو
اور اس کا طرزِ عمل بھی مخاصمانہ تھا
کسی کے اونچے در و بام محترم تھے مگر
ہمیں ہوا کے لئے راستہ بنانا تھا
یہ خاک بغض و عداوت سے پاک رکھنی تھی
زمین دل پہ شجر پیار کا اگانا تھا
میں جانتا ہوں اُسے مجھ پہ اعتبار نہ تھا
اگرچہ مےرے گواہوں میں اک زمانہ تھا
یہ تُو نے ترکِ مراسم کی بات کیوں چھیڑی
ہمیں تو یوں بھی ترا شہر چھوڑ جانا تھا
کئی چراغ منڈیروں پہ جل بجھے انور
اُسے نہ آنا تھا ، شاید اُسے نہ آنا تھا