تری آواز پر رکے ہی نہیں
سو کئی واقعے ہوئے ہی نہیں
اس نے جتنے دئے میں لے آیا
مفت کے سانس تھے گنے ہی نہیں
معجزے وقت پر نہیں ہوتے
سانحے وقت دیکھتے ہی نہیں
جھوٹ ہے دل بدر کئے گئے ہیں
سچ کہیں ہم وہاں پہ تھے ہی نہیں
سب حقیقت پسند ہو گئے ہیں
لوگ اب خواب دیکھتے ہی نہیں
جو ترے نام میں نہیں آتے
ایسے حرفوں کو جانتے ہی نہیں
رس رہے ہیں جگہ جگہ سے اسدؔ
اس نے کچھ زخم تو سیے ہی نہیں