تری تصویر
Poet: Fazlul Hasan By: F.H.Siddiqui, Lucknow دیکھتا ہوں تری تصویر تو رو دیتا ہوں
اپنی البم کے میں اوراق بھگو دیتا ہوں
چشم پر شوق تو تصویر سے ہٹتی ہی نہیں
ابروؤں کی تری شمشیر سے ہٹتی ہی نہیں
عزم و پیمان وفا ہیں ترے چہرے پہ رقم
آنکھ اس پیار کی تحریر سے ہٹتی ہی نہیں
پیکر عشق کو اشکوں میں ڈبو دیتا ہوں
اپنی البم کے میں اوراق بھگو دیتا ہوں
تیری آنکھوں سے چھلکتی ہے محبت کی شراب
ہے تری زلف سیہ تیرگی شب کا جواب
ہائے عارض کی شفق ہائے یہ ہونٹوں کے گلاب
تیری تصویر نہیں یہ تو ہے تصویر شباب
دیکھ کر میں بخدا ہوش بھی کھو دیتا ہوں
اپنی البم کے میں اوراق بھگو دیتا ہوں
تیری تصویر تری یاد دلا دیتی ہے
درد دل درد جگر اور بڑھا دیتی ہے
بیقراری شب فرقت کی بڑھا دیتی ہے
میرے سوئے ہوئے جذبات جگا دیتی ہے
رکھ کے سینے پہ میں تصویر کو رو دیتا ہوں
اپنی البم کے میں اوراق بھگو دیتا ہوں
ہمسفر بھی تمھیں رہبر تمھیں منزل ہو تمھیں
تم ہی ملکہ ہو مرے دل کی کوئی اور نہیں
سینکڑوں تم پہ میں قربان کروں ماہ جبیں
ساتھ دو تم تو زمانے کی بھی پرواہ نہیں
بات کر کے تری تصویر سے رو دیتا ہوں
اپنی البم کے میں اوراق بھگو دیتا ہوں
دیکھتا ہوں تری تصویر تو رو دیتا ہوں
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل






