تری وفا کی فضاؤں میں مجھ کو رہنا ہے
دھڑکتے دل کی صداؤں میں مجھ کو رہنا ہے
نہ چھو سکیں گے مری گرد بھی جہاں والے
میں موجِ گل ہوں ہواؤں میں مجھ کو رہنا ہے
میں اس جہاں میں رہوں یا کہ نہ رہوں لیکن
ہر ایک دل کی دعاؤں میں مجھ کو رہنا ہے
جو بڑھنے دے گا نہ قد مجھ سے ننھے پودے کا
اُسی درخت کی چھاؤں میں مجھ کو رہنا ہے
میں چھوڑ کر چلی آؤں گی روشنی کا شہر
تمہارے چھوٹے سے گاؤں میں مجھ کو رہنا ہے
ہیں میری روح کو جکڑے قدیم رسم و رواج
انہی گھٹی سی فضاؤں میں مجھ کو رہنا ہے
کیا تھا جرم کبھی میں نے چاند چھونے کا
اب ایک عمر خلاؤں میں مجھ کو رہنا ہے
میں جانتی ہوں نہیں یہ مرا جہاں لیکن
انا کے جھوٹے خداؤں میں مجھ کو رہنا ہے
چنی ہیں میں نے یہ راہیں خود اپنی مرضی سے
رۂ جفا کی سزاؤں میں مجھ کو رہنا ہے