تری یادوں کی نقاشی کھرچ کر سہنے لگتے ہیں
جھلستی ریت پر ہم اک سمندر بہنے لگتے ہیں
عقیق و نیلم و لعل و جواہر پھینک آئے ہیں
سمندر میں عجب منظر شناور آنے لگتے ہیں
بتاؤ کون تھا ، کیسا تھا جس سے سلسلہ ٹھہرا؟
کہا کرکے وفا کا خون،میں یہ لکھنے لگتے ہیں
تری یادیں تری باتیں سبھی اوراق پارینہ
ہم اک اک کر کے سب ہی دل سے کہنے لگتے ہیں
تلاطم ہو کہ طوفاں ہو یہ دریا پار کرنا ہے
ہم اپنی کشتیاں موجوں کے اندر لانے لگتے ہیں
تلاش ذات میں ہم کو کسی بازار ہستی میں
ترا ملنا ترا کھونا الگ ہی رونے لگتے ہیں
دیے کے اور ہواؤں کے مراسم کھل نہیں پاتے
نہیں کھلتا کہ ان میں سے یہ کس کے رسنے لگتے ہیں
گزارہ جب بھی قوموں نے کیا وشمہ برائی میں
سنو کیسا لگا اس شخص سے ہی ملنے لگتے ہیں