ترے ہی درد سے میں آشنا ہر دم رہا ہوتا
مری بگڑی سنور جاتی مقدر بھی جگا ہوتا
مری ہے منزلِ مقصود یہ ہی منزلِ جاناں
کبھی نظر کرم ہوتی تو گوہر مل گیا ہوتا
یہ میری آتشِ الفت کبھی بھی بجھ نہیں سکتی
طبیبوں کو بھی کیسے یہ بجھانے کا پتہ ہوتا
کوئی آساں نہیں ہے ناز الفت بھی اٹھا لینا
مٹا دے اپنی ہستی تو مزہ کچھ بھی چکھا ہوتا
کسے جا کر سنائیں داستاں حسرت بھری اپنی
کوئی اہل نظر بھی اِس زمانے میں ملا ہوتا
بڑی مشکل سے آتا ہے ادب بھی بزمِ جاناں کا
یہ بھی تو سیکھنے کی چیز ہے آگے بڑھا ہوتا
کسی سے کوئی مل جائے غرض سے تو کیا حاصل
تمنا ہے اثر کی بے غرض کوئی ملا ہوتا