وہ دل کی ہے محویت خود سے بھی ہیں انجانے
سب ہم کو برابر ہیں اپنے ہوں یا بیگانے
آ غازِ محبت میں وحشت ہے سِوا دل کی
انجامِ جنوں اپنا کیا ہوگا خدا جانے
اب دیدِ مسلسل سے بھی پیاس نہیں بجھتی
سب تشنہ سے لگتے ہیں ساغر ہوں یا پیمانے
بھولے سے کبھی ہم جو منزل کی طرف نکلے
دنیا ہے چلی آئی پھر ہم کو ہے بہکانے
کیا ہاتھ ہوا ہم سے اس عشق کی بازی میں
ہم خود کو ہیں کھو بیٹھے تجھ کو تھے چلے پانے
سوغات تیرے کوچے کی اپنا نصیبہ ہے
اینٹیں ہیں کہیں پتھردشنام کہیں طعنے
بیداد گری کی بھی فریاد رسی ہوگی
یہ سو چ کے ہی فیصلؔ خاموش ہیں دیوانے