تصور میں تمھیں میں دیکھتا ہوں پیار کرتا ہوں
Poet: Dr.Zahid Sheikh By: Dr.Zahid Sheikh, Lahore Pakistanتصور میں تمھیں میں دیکھتا ہوں پیار کرتا ہوں
حقیقیت میں تمھیں میں پا نہیں سکتا ہے مجبوری
اداسی میں گزرتے ہیں مرے شام و سحر جاناں
محبت کر کے بھی ہم میں رہی ہے آج تک دوری
رہی ہے ہر قدم پہ اک نئی مشکل مرے ہمراہ
یہ کیسی الجھنیں ہیں جن کو میں سلجھا نہیں پایا
چکائی ہے ہے بڑی قیمت خوشی کی گر کبھی پائی
سکوں کا زندگی میں ایک بھی لمحہ نہیں آیا
جہاں کا درد بھی ہے اور الفت کے بھی غم دل میں
جئیے کیسے بھلا کوئی ہزاروں زحمتوں کے ساتھ
محبت نہ سہی تقدیر میں یہ سہہ بھی لے کوئی
مگر زندہ رہے کیسے وہ سب کی نفرتوں کے ساتھ
میں اپنی زندگی کے مسئلوں کو بھول سکتا تھا
ہمیشہ کے لیے جو زیست میں میری تو آ جاتی
مرے دن رات یوں ویراں نہ ہوتے اے مری محبوب
جدائی کی دیواریں گر تو ہمت سے گرا پاتی
ترے بن زندگی میں حسن ہے اور نہ ہی دلچسپی
میں خود کو ہر گھڑی اب موت کے ہاتھوں میں پاتا ہوں
میں چاہوں بھی تو پل بھر کے لیے اب ہنس نہیں سکتا
میں تنہائی میں اکثر غم کے نغمے گنگناتا ہوں
تصور میں تمھیں میں دیکھتا ہوں پیار کرتا ہوں
حقیقت میں تمھیں میں پا نہیں سکتا ہے مجبوری
اداسی میں گزرتے ہیں مرے شام و سحر جاناں
محبت کر کے بھی ہم میں رہی ہے آج تک دوری
تصور میں تمھیں میں دیکھتا ہوں پیار کرتا ہوں
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل






