تصورِ، پیار میں گُم، یار سوتے لکھ دیا میں نے
قلم کی نوک سے یوں زار روتے لکھ دیا میں نے
جو باتیں کہہ نہیں پایا کبھی بھی سامنے اُنکے
وہ سب کچھ نیر اپنے سے بھگوتے لکھ دیا میں نے
محبت کا سمندر موجزن صدیوں سے تھا میرا
اُسے بس دو ہی سطروں میں سموتے لکھ دیا میں نے
میرے ماضی کی تختی پر حروفِِ بے وفائی تھے
اُسے بھی عشق سے مل مل کے دھوتے لکھ دیا میں نے
بڑی مشکل سے اظہر نے چھپایا تھا جسے اب تک
اُسے اک صبح کے انجام ہوتے لکھ دیا میں نے