تصویر تیری
Poet: imran Gohar By: imran Gohar, Faisalabadجِس پَل دیکھی تصویر تیری
تسکین ملی اِن آنکھوں کو
تعریف میں تیری کیا بولوں
لب کُھلتے ہیں سِل جاتے ہیں
پُر زور سعی فرماتا ہے
تصویر تیری
اِک دیکھنے والا کہتا ہے
یہ رُخ دیکھوں تو لگتا ہے
جیسے ہو رِیگ کے صحرا میں
سونے کی مورت ہاتھ لگی
ارکان تمہارے چہرے کے
عالم کی سیر کراتے ہیں
یہ آنکھیں،
کیا کہنا اِن کا
مخمور کریں ہیں بِن بادہ
یہ نین تیرے اتنے سادہ
جُوں یک جا ہو، منزل، جادہ
یہ گیسو،
دیبا ہیں تو ،
سُلجھے ریشم کے دھاگے ہیں
اِتنی سی حقیقت پانے کو
ہم رات رات بھر جاگے ہیں
تُلسی کی مہک رکھنے والے
یہ ہونٹ،
تو ہیں چکھنے والے
ب، ب سے بن کر بےپرواہ
رَس بار بار برساتے ہیں
رُخسار
گُلاب سے ہیں تیرے
یہ کہنا، بات بڑھانا ہے
تو سر سے لے کر قدموں تک
مستانی رُت کا گانا ہے
ناک میں موتی، ایسے جیسے
چاند میں اُبھرا تارا ہو
دل یہی تو مانگا کرتا تھا
اِک ساتھی ہو جو پیارا ہو
کان میں موتی جُھمکا ہے
جُھمکے کی ہمجا بالی ہے
آنکھ نے دیکھے لاکھ حسیں
پر تیری بات نرالی ہے
لکھنے کو اور بھی ہے لیکن
ہر بات کو لکھنا ٹھیک نہیں
لیکن جو اب تک لکھا ہے
ہرگز مت کہنا ٹھیک نہیں
شاید کوئی آنے والا ہے
چاپ کسی کی سُنتا ہوں
چشمِ بد دور رہے تم سے
اِس لئے یہ پردہ کرتا ہوں
تصویر تیری اب رکھتا ہوں
تصویر تیری اب رکھتا ہوں
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل
فقیریہ ترے ہیں مری جان ہم بھی
گلے سے ترے میں لگوں گا کہ جانم
نہیں ہے سکوں تجھ سوا جان ہم بھی
رواں ہوں اسی واسطے اختتام پہ
ترا در ملے گا یقیں مان ہم بھی
تری بھی جدائ قیامت جسی ہے
نزع میں ہے سارا جہان اور ہم بھی
کہیں نہ ایسا ہو وہ لائے جدائ
بنے میزباں اور مہمان ہم بھی
کہانی حسیں تو ہے لیکن نہیں بھی
وہ کافر رہا مسلمان رہے ہم بھی
نبھا ہی گیا تھا وفاکو وہ حافظ
مرا دل ہوا بدگمان جاں ہم بھی
زِندگی جینے کی کوشش میں رہتا ہوں میں،
غَم کے موسم میں بھی خوش رہنے کی کرتا ہوں میں۔
زَخم کھا کر بھی تَبسّم کو سَنوارتا ہوں میں،
دَردِ دِل کا بھی عِلاج دِل سے ہی کرتا ہوں میں۔
وقت ظالم ہے مگر میں نہ گِلہ کرتا ہوں،
صبر کے پھول سے خوشبو بھی بِکھرتا ہوں میں۔
چاند تاروں سے جو باتیں ہوں، تو مُسکاتا ہوں،
ہر اَندھیرے میں اُجالا ہی اُبھارتا ہوں میں۔
خَواب بِکھرے ہوں تو پَلکوں پہ سَمیٹ آتا ہوں،
دِل کی ویران فَضا کو بھی سَنوارتا ہوں میں۔
کون سُنتا ہے مگر پھر بھی صَدا دیتا ہوں،
اَپنے سائے سے بھی رِشتہ نِبھاتا ہوں میں۔
دَرد کی لَوٹ میں بھی نَغمہ اُبھرتا ہے مِرا،
غَم کے دامَن میں بھی اُمید سجاتا ہوں میں۔
مظہرؔ اِس دَور میں بھی سَچ پہ قائم ہوں میں،
زِندگی جینے کی کوشَش ہی کرتا ہوں میں۔






