بابِ فردوس تمہارے لئے کھلا رکھا ہے جامِ جمشید درِ عشق پہ لا رکھا ہے چھپ رہا چاند مگر عکسِ قمر پیکر ہے بزم میں شوکتِ دیدار بٹھا رکھا ہے زیورِ حسن سے آراستہ رخسار و جبیں سبزہ زاروں نے نیا رنگ سجا رکھا ہے