درد بڑھتا ہے تو فوراً ہی دوا کرتے ہیں
اور کچھ بھی نہیں ہم اس کے سوا کرتے ہیں
کوئی تعویذ بنا دے کہ سبب بن جائے
ان سے ملنے کی تو ہم روز دعا کرتے ہیں
کیسے کہدیں کہ تجھے قید کیا تھا ہم نے
تیرے صدقے میں پرندوں کو رہا کرتے ہیں
وہ تو اپنا تھا اسے کیسے بھلا دکھ دیتے
ہم تو دشمن سے بھی ہنس ہنس کے ملا کرتے ہیں
تم کو آتے ہیں نظر جو یہاں مخلص اکثر
زہر ہوتا ہے زباں میں وہ ڈسا کرتے ہیں
عشق نے ایسی کرامت کی عطا ہے ہم کو
ہم فقیروں کے لیے لوگ دعا کرتے ہیں
بھول بیٹھا ہے زمانے کے غموں کو ارشیؔ
خود کی ٹھوکر سے بھی تو لوگ گرا کرتے ہیں