تقدیر سے اب کوئی گلہ ہی نہیں
افتادِ پیہم کا شاید صلہ ہی نہیں
کٹ بھی چلا ہے سفر زیست کا
سنگ میرے تو اب تک چلا ہی نہیں
فاصلوں کے تدارک میں عقل نے مری
سوائے ماتم کے ابھی کچھ کیا ہی نہیں
جسے خون رو کر چین مل جائے حنا
اس خمیر سے دل یہ بنا ہی نہیں