تم اپنی داستان سنا ہی دو
اب اپنے رخ سے پردہ ہٹا بھی دو
باتیں فراق و ہجر کی مت پوچھو
خط جتنے پاس ہیں وہ جلا ہی دو
کیسے گزر رہی ہے جدائی میں
کیسا لگا فراق بتا بھی دو
اور انتظار مجھ سے نہیں ہوتا
دیوار رستے میں ہے گرا ہی دو
دشمن بن گیا ہے زمانہ ہی
ملنا کہاں ہے یار بتا بھی دو
عزت سبھی کو ہوتی ہے پیاری یار
اس کا غرور آج مٹا ہی دو
لگتی ہیں زہر تیری مجھے باتیں
اس نے کہا ہے اب تو بھلا بھی دو
میرے خلاف بن گیا منصوبہ
اب آؤ مجھ پہ گولی چلا ہی دو
کب تک سہو گے تم یہ ستم شہزاد
دل میں لگی ہے آگ بجھا بھی دو