تم اکثر بھول جاتی ہو
کہ اپنے درمیاں جاناں
سمندر ہیں زمانے کے
اناؤں کی دیواریں ہیں
انہیں کیسے مٹائیں گے
کبھی سوچا بھی ہے تو نے؟
کبھی سمجھا بھی ہے تو نے؟
کہ دنیا کی یہی رسمیں
محبت کرنے والوں کو
کبھی ملنے نہیں دیتیں
دلوں میںآرزوؤں کے
کنول کھلنے نہیں دیتیں
زخم خوردہ امنگوں کو
کبھی سلنے نہیں دیتیں
تم اکثر بھول جاتی ہو
کہ ان پابند راہوں سے
نہ میں باغی نہ تو باغی
زمانےکے رویوں سے
گزرتے پل کے پہیوں سے
نہ میں باغی نہ تو باغی
تم اکثر بھول جاتی ہو
جنوں کے جوگ ہوتے ہیں
ہزاروں روگ ہوتے ہیں
بکھرتے شادیانوں میں
سسکتے سوگ ہوتے ہیں
وہ آتے وقت کے لمحے
کئی خدشات میں لپٹے
کہ جب مجبوریاں اپنی
انہی رسموں میں بہہ جائیں
اور ہم تنہا ہی رہ جائیں
تم اکثر بھول جاتی ہو
کہ پھر ماضی کے یہ لمحے
تمہیں جب یاد آئیں گے
تو تم سر کو جھٹک دو گی
حسیں سا بچپنا کہہ کر
میرے وجدان میں اکثر
وہ لمحے آتے رہتے ہیں
مجھے آتے ہوئے کل کا
سماں دکھلا تے رہتے ہیں
تمہارے ساتھ ہو کر بھی
تیری آنکھوں میں کھو کر بھی
میں اکثر یاد رکھتا ہوں
تم اکثر بھول جاتی ہو