تم بھی جاناں کیسے ہو
پل پل ڈرتے رہتے ہو
پردہ دار بدن کے اندر
آگے پیچھے سوچ سمندر
ریت کنارے بیٹھے ہو
تم بھی جاناں کیسے ہو
چادر ڈال کے چہرے پر
شب کی اوٹ میں چلتے ہو
خواب دلہن کی ڈولی میں
اپنے لمس کی جھولی میں
خود کو چومتے رہتے ہو
تم بھی جاناں کیسے ہو
خوب نہا کر پانی سے
کپڑے اوڑھ کے دھانی سے
اپنے آپ کو تکتے ہو
تم بھی جاناں کیسے ہو
لیکن رات کو بستر میں
تنہا ذات کے مندر میں
سن کر بھجن اندھیرے کے
دھاڑیں مار کے روتے ہو
اپنے حسن کے سونے کو
بھربھری مٹی کہتے ہو
تم بھی جاناں کیسے ہو