تم بھی دوسری منزل کو چلو اور رُک جائیں قدم
ایسا بھی کہاں مقدر کہ لوٹتے کو مل جائیں ہم
رسم الخط میں کہیں قلم بہک جاتے ہیں
بکھرے اِن خیالوں میں وہ کہاں الباب ہے
کپکپاتے ہاتھ کو شاید کبھی نہ بھول پائیں ہم
کوئی تنہائیوں کے بدن ٹوٹ کے بکھرے اور
وہ سحراؤں سے بچھڑ کر آئی برسات ہے
ایسی بھی ملاقات کو شاید کبھی نہ بھول پائیں ہم
آج بھی فلک پہ نکھرا وہی چاند تھا
مگر اِس چاندنی میں تو کہاں ساتھ ہے
اور تیری یاد کو شاید کبھی نہ بھول پائیں ہم
تم کتنی کروٹیں بدلو یا کتنی نیندیں جاگو
مگر جو خواب میں ہے سنتوشؔ وہ خواب ہے
اسی ہی خواب کو شاید کبھی نہ بھول پائیں ہم