تم بھی عام سے نکلے
جھیل کے کنارے پر
ایک شام بیٹھا تھا
ڈھل رہا تھا سورج اور
آسماں پہ سرخی تھی
جھیل کے کنارے کے
منفرد سے حصے کو
ایک لہر دانستہ
چومتی رہی پل پل
دیکھ کر عنایت اور
دیکھ کر کرم اتنا
جھیل کے کنارے کے
سادہ لوح حصے نے
لہر سے کہا اتنا
تم بہت ہی اچھی ہو
آؤ ایک ہوجائیں
چاہتوں میں کھو جائیں
بدلے بدلے لہجے میں
لہر نے یہ فرمایا
میں تمہیں کناروں سے
مختلف سمجھتی تھی
تم بھی عام سے نکلے