تم بھی عام سے نکلے

Poet: وَرْد بزمی By: Ward Bazmi , Islamabad

تم بھی عام سے نکلے
جھیل کے کنارے پر
ایک شام بیٹھا تھا
ڈھل رہا تھا سورج اور
آسماں پہ سرخی تھی
جھیل کے کنارے کے
منفرد سے حصے کو
ایک لہر دانستہ
چومتی رہی پل پل
دیکھ کر عنایت اور
دیکھ کر کرم اتنا
جھیل کے کنارے کے
سادہ لوح حصے نے
لہر سے کہا اتنا
تم بہت ہی اچھی ہو
آؤ ایک ہوجائیں
چاہتوں میں کھو جائیں
بدلے بدلے لہجے میں
لہر نے یہ فرمایا
میں تمہیں کناروں سے
مختلف سمجھتی تھی
تم بھی عام سے نکلے

Rate it:
Views: 789
10 Jun, 2014