تم نے جو کہا یاد کا ہر نقش مٹا دوں
چل ساتھ تو پھر اشک سمندر میں گرا دوں
ہیں میرے اختیار میں ہاتھوں کی لکیریں
میں چاہوں تو ہر خواب کو تعبیر بنا دوں
کچھ دیر تیری یاد کے دامن سے لپٹ کر
جی چاہتا ہے عمر کا ہر روگ بھلا دوں
سرکش سا ہو چلا ہے تیرے ساتھ کے بل پر
کیوں نہ ذرا خیال کو آئینہ دکھا دوں
تھامی وہ کلائی تو صدا غیب سے آئی
میں حسن ہوں یوسف کو بھی بن مول بکا دوں
ہر روپ پر عیاں ہے غم شہر تمنا
سب طالب سکون ہیں کس کس کو دعا دوں
اتنا یقیں تو مجھکو بھی ہے اپنے شوق پر
تم خود کو بھول جاؤ گے گر تم کو بھلا دوں